ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وعظ فرمایا اور قیامت کی ہولناکیوں کا اس انداز میں بیان فرمایا کہ سامعین متاثر ہو کر زار و قطار رونے لگے، اور لوگوں کے دل دہل گئے اور لوگ اس قدر خوف و ہراس سے لرزہ براندام ہو گئے کہ دس جلیل القدر صحابہ کرام حضرت عثمان بن مظعون حجمی کے مکان پر جمع ہوئے ۔۔۔۔
بنی اسرائیل کی ایک جماعت جو حضرت حزقیل علیہ السلام کے شہر میں رہتی تھی، شہر میں طاعون کی وبا پھیل جانے سے ان لوگوں پر موت کا خوف سوار ہو گیا۔ اور یہ لوگ موت کے ڈر سے سب کے سب شہر چھوڑ کر ایک جنگل میں بھاگ گئے اور وہیں رہنے لگے تو اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کی یہ حرکت بہت زیادہ ناپسند ہوئی۔
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت آدم عَـلَيْـهِ الصَّلٰوۃُ وَ الـسَّـلَام سے ہمارے آقا حضور سیِّد عالَم صَلَّى اللهُ تَعَالٰى عَلَيْهِ وَاٰلِهٖ وَسَلَّم تک بہت نبی بھیجے، قرآنِ پاک میں جن کا ذکر ہے، ان کے اسماءِ مبارکہ یہ ہیں:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لئے جانے کے بعد عیسائیوں کا حال بے حد خراب اور نہایت ابتر ہو گیا۔ لوگ بت پرستی کرنے لگے اور دوسروں کو بھی بت پرستی پر مجبور کرنے لگے۔ خصوصاً ان کا ایک بادشاہ ”دقیانوس” تو اس قدر ظالم تھا کہ جو شخص بت پرستی سے انکار کرتا تھا …
ایمانِ مُفَصَّل, ایمانِ مُجْمَل اور شَشْ (چھ) کَلِمے عربی اور اردو ترجمے کے ساتھ
مسلمان ہونے کیلئے یہ ضروری ہے کہ دل سے تصدیق کرنے کیساتھ ساتھ زبان سے بھی ان الفاظ کا اقرار کرے کہ: ’’ اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللّٰہ کے رسول ہیں۔ ‘‘ یہ تصدیق اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ موجود ہے اس کے جیسا کوئی نہیں ہے اور کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں، وہ سب سے بڑا ہے، سوائے اُس کے کوئی بھی عبادت کا حقدار نہیں ہے اور یہ اِس بات کی بھی گواہی ہے کہ سب موجود چیزوں کا خالق ومالک اللّٰہ تعالیٰ ہے، اللّٰہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
باوُضُو قِبلہ رُو اِس طرح کھڑی ہوں کہ دونوں پاؤں کے پنجوں میں چار اُنگل کا فاصِلہ رہے اور دونوں ہاتھ کندھوں تک اُٹھائیے اور چادَر سے باہَر نہ نکالئے۔ ہاتھوں کی اُنگلیا ں نہ ملی ہوئی ہوں نہ خوب کھلی بلکہ اپنی حالت پر رکھئے اور ہتھیلیاں قبلہ کی طرف ہوں نظر سَجدہ کی جگہ ہو۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! انسان کی ذات اچھائیوں اور بُرائیوں کا مجموعہ ہے، اس کی بعض برائیاں و خامیاں دوسروں کو معلوم ہوتی ہیں اور کچھ چھپی رہتی ہیں۔ مگر چند لوگوں کی طبیعت مکھی کی طرح ہوتی ہے جو سارا جسم چھوڑ کر زخم پر بیٹھنا پسند کرتی ہے، چنانچہ یہ لوگ دوسروں کی چھپی ہوئی برائیوں کی تلاش میں رہتے ہیں
اسلامی زندگی کا ایک پہلو ایک دوسرے کو برداشت کرنا بھی ہے، کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں کسی کی کوئی بات ناگوار گزرتی ہے تو ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہم اپنی ناگواری کا اُس پر اظہار کر دیں۔ یاد رکھئے! اس سے معاملات سُدھرتے نہیں بلکہ بگڑنے کا اِمکان زیادہ ہوتا ہے۔
گھر میں آنے جانے کی سنتیں اور آداب ہمیں ہر روز اپنے یا کسی عزیز یا دوست واحباب کے گھر میں جانے کی حاجت پڑتی رہتی ہے تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہے کہ گھر میں داخل ہونے کا سنت طریقہ کیا ہے؟ کسی کے گھر میں جائیں تو دروازے کے سامنے کھڑے ہوں …